اگر ہم کامیابی و ناکامی کی اصل وجوہات کی تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے پس پردہ انسانی سوچ ہی ہے، جو انسان کو کامیاب و ناکام بناتی ہے۔ اگر آپ کاروباری شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور کامیاب بزنس مینوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، تو بادشاہوں والی سوچ پید اکرنا بے حد ضروری ہے۔ جس طرح فقیر ساری زندگی مانگنے والی سوچ سے باہر نکل کر کامیاب نہیں بن سکتا، اسی طرح بزنس مین اپنی بہترین سوچ و خیالات سے اپنے حالات بدل سکتا ہے؛ کیوں کہ انسان حالات کا نہیں، خیالات کی پیداوار ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں ایک جیسے دکھنے والے انسانوں میں کچھ غریب اور کچھ امیر کیوں ہوتے ہیں؟ اگر ساری دنیا کی دولت تمام انسانوں میں باہم تقسیم کردیں تو آپ دیکھیں گے کچھ دنوں میں پھر سے کچھ غریب اور کچھ امیر ہوں گے۔ اس لیے کہ انسان کے سوچنے کے طریقے مختلف ہیں۔ آج دنیا میں ایک دلچسپ موضوع یہ ہے کہ کیسے کچھ لوگ امیر ہو جاتے ہیں؟ وہ کیا عوامل ہیں جس سے لوگ ساری زندگی غریب رہتے ہیں؟
کاروباری اور پیسے کی دنیا میں آپ کو دو طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ ایک وہ جو غریبی سے امیری کے سفر میں بذات ِ خود کٹھن حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور اس سفر میں آنے والی پریشانیوں، مصیبتوں سے نہیں گھبراتے؛ بالآخر یہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی ساری عمر ’’کمفرٹ زون‘‘ میں گزار دیتے ہیں۔ جب کامیابی ان سے ایک قدم دور ہوتی ہے، یہ چند دائروں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ اگر ان دونوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو امیر اور غریب کا فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے کام ہیں جن سے امیری اور غریبی کے فرق کی پہچان کی جاسکتی ہے۔
آئیے! امیر غریب کی ان نشانیوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
امیر آدمی کی زندگی پلاننگ اور مقاصد سے بھرپور ہوتی ہے، وہ زندگی مقاصد کے حصول کے لیے گزارتا ہے۔ جبکہ غریب آدمی کی زندگی میں کوئی مقصد، کوئی وژن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ غریب آدمی زندگی کو نہیں بلکہ زندگی اسے گزار رہی ہوتی ہے۔ امیر آدمی اپنی زندگی خود تخلیق کرتا ہے۔ یہ اپنے کام سے محبت کرتا ہے، نئے آیڈیاز تلاش کرتا ہے، کتابیں پڑھتا ہے، امیر لوگوں سے ملتا ہے، ان کی عادتیں اپناتا ہے، ان سے کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کمر کس لیتا ہے۔
امیر آدمی ہمیشہ کمفرٹ زون سے باہر نکل کھیلنے کا عادی ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ جلد آؤٹ ہوجانے سے بھی نہیں ڈرتا۔ یہ نئے کاروبار سیکھتا ہے اور خود پر نئی پروڈکٹ بنانے کی دھن سوار کرلیتا ہے۔ اس کے لیے یہ کسی بھی بڑی برانڈ سے منسلک ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ غریب آدمی جینے کے آسرے ڈھونڈتا ہے۔ یہ خواب تو دیکھتا ہے مگر یہ خواب بڑے نہیں ہوتے۔ غریب آدمی کی سوچ کا دائرہ محددو ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ ہارجانے، ناکام ہو جانے اور رسک لینے سے خوف کھاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی کامیاب انسان نہیں گزرا، جس نے اول جست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ کامیابی خطرات مول لینے کے بعد ملتی ہے۔
امیر آدمی اپنے وقت کا درست استعمال کرتا ہے۔ یہ اپنے دل دماغ میں بیٹھا دیتا ہے کہ دنیا مواقعوں کا بازار ہے۔ یہاں سے جتنا مال خرید سکتے ہو خرید لو۔ یہ موقعوں کے اس بازار میں کسی سے حسد نہیں کرتا بلکہ اپنے سے زیادہ کامیاب لوگوں کی محفلیں تلاش کرتا ہے اور ان میں جُڑ جاتا ہے۔ یہ امیر لوگوں سے تعلقات بناتا ہے اور امیروں کے اس بازار میں ہر دکان سے کچھ نا کچھ ضرور لیتا رہتا ہے۔ جب وہ بازار سے باہر آتا ہے تو اس کی کاروباری صلاحیتیں نکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں بہتری کی رمق محسوس کرتا ہے، پھر یہ نئے راستوں پہ چل کر نئی منزلیں پا لیتا ہے۔
اس کے برعکس غریب آدمی موقعوں کے بازار سے خالی ہاتھ لوٹ آتا ہے۔ یہ ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور انہیں بے کار سمجھتا ہے۔ یہ بھی امیر لوگوں کی طرح بازار تو جاتا ہے مگر حسد کی آگ میں جل کر خاکستر لوٹتا ہے۔ یہ اپنی ساری توانائیاں حسد کرنے میں ضائع کردیتا ہے۔ غریب آدمی کیوں کہ ایک مخصوص دائرے تک سیکھتا ہے، اس لیے یہ بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔
امیر آدمی کی کامیابی کا راز اس کے آس پاس کے متعلقین ہوتے ہیں۔ یہ خوش حال لوگوں سے دوستی کرتا ہے، سازگار ماحول میں رہتا ہے۔ امیر لوگ ایسے ماحول سے ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ جدوجہد کرنے، لڑنے، نہ گھبرانے، ہمت وحوصلے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایسے ماحول کے نتائج حیران کن ہوتے ہیں۔ یہ کامیاب سوچ کو جنم دیتے ہیں۔ پھر انسان محدود سوچ سے بھی کامیابی کی طرف رواں ہو جاتا ہے اور آسانیاں اس کے ہمدم چلتی رہتی ہیں۔ غریب لوگ کیوں کہ زندگی کا ابتدائی وقت کھیل کود ،سیر وتفریح، سونے اور غفلت میں گزار دیتے ہیں جس کی وجہ سے آنے والی زندگی کولہو کا بیل بن کر رہ جاتی ہے۔ غریب آدمی محنت تو کرتا ہے لیکن اس محنت کا ’’فیڈ بیک‘‘ اسے نہیں ملتا۔ ایسے میں اسے مایوسی گھیر لیتی ہے اور پھر یہ اس مایوسی کے جال میں جکڑ کر رہ جاتا ہے۔
امیر اور غریب آدمی میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ امیر آدمی پیسے کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ پیسے سے پیسہ کماتا ہے، کچھ خرچ کرتا ہے، کچھ جمع کرتا ہے اور کچھ کاروبار میں لگا دیتا ہے۔ جب کہ غریب آدمی پیسہ خرچ کرنے کے لیے کماتا ہے۔ یہ پیسے کو ہاتھ کی مَیل سمجھ کر واقعی ہاتھ کی مَیل کی طرح جیب سے صاف کر دیتا ہے۔ یہ فضول خرچی کو بھی اپنی سخاوت ودریا دلی سمجھ کر خوش ہوتا ہے۔ نہ خریدنے والی اشیاء کو اسٹاک کرلیتا ہے۔ پھر ضروری چیزوں کے لیے پیسے کی محتاجی اسے کھا جاتی ہے۔ اسی وجہ سے غریب آدمی اپنی آمدن سے اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اس کے پاس اضافی بچت نہیں ہوتی۔
اگر آپ بھی کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ اپنی سوچ بدل لیں حالات اپنے آپ مڑ جائیں گے۔ پھر خیالات کا بدلنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post کامیابی کے لیے سوچ بدلیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2LRJEqQ
No comments:
Post a Comment