قلیل مدتی یادداشت کی خرابی (شارٹ ٹرم میموری لاس) ایک بیماری کا نام ہے۔ جو بھی اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، اس کی حالت کچھ یوں ہوتی ہے کہ اسے بیس سال پہلے کے واقعات تو یاد آسکتے ہیں لیکن وہ بیس منٹ پہلے رونما ہونے والے حادثات و واقعات یکسر بھلا بیٹھتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو برسوں پہلے کی بات نہیں بھولتے لیکن ماضی قریب کی باتوں کو بالکل بھلا دیتے ہیں، وہ شارٹ ٹرم میموری لاس نامی بیماری کا شکار ہیں۔
لیکن موضوع بحث یہ بیماری نہیں بلکہ اس کے اثرات ہیں جو اکثر پاکستانیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی قوم کو برسوں پہلے ہونے والے واقعات جیسے کہ بھٹو کی پھانسی، ایٹمی دھماکے، کارگل کی جنگ، اور بی بی کی شہادت وغیرہ تو ازبر ہیں لیکن جب الیکشن کے موقع پر پانچ سال پہلے والا وہی انسان سامنے آتا ہے جو پچھلے انتخابات میں ان سے وعدے وعید کرکے، ووٹ لے کر، انتخاب جیت کر غائب ہوچکا تھا، باوجود تلاش بسیار کہیں سے دستیاب نہیں ہوسکا تھا اور اس کی جانب سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا تھا، تو عامۃ الناس اس کا پچھلا سلوک بھلاکر پھر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے؟
رشتے دار جو باپ کے جنازے پر نہیں آسکے تھے، ان کی نسلوں سے اس بات کا انتقام لیا جاتا ہے۔ پڑوسی اپنی موٹرسائیکل نہ دے تو یہ بات عرصے تک دل میں رکھی جاتی ہے۔ رشتہ کرتے وقت اس بات کو دوہرایا جاتا ہے کہ بیس سال پہلے ان کے خاندان سے رشتہ مانگا تھا تو انہوں نے ’’نہ‘‘ کیوں کی تھی؟ پس ہماری بھی ’’نہ‘‘ سمجھو۔ مگر یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی کہ صرف پانچ سال پہلے جو شخص اتنے وعدے کرکے گیا تھا، اس نے صرف وعدے ہی نہیں توڑے بلکہ ایسا فرعون ہوا کئی مواقع پر اس نے اپنے دفتر میں داخل تک ہونے نہیں دیا۔ کیا یہ توہین نہیں تھی؟ کیا اس قسم کی حرکت کو فراموش کیا جاسکتا ہے؟ جس گلی اور سڑک کا وعدہ اس نے کیا تھا، کیا وہاں بچے زخمی نہیں ہوئے؟ کیا وہ اسکول کھلا جہاں بچوں کو تعلیم حاصل کرنا تھی؟ لیکن ایسا کیا ہوا کہ سب کچھ ذہن سے محو ہوگیا؟
اس کا سبب کوئی بیماری ہی ہوسکتی ہے، اور وجہ تلاش کرنی ہے کہ آیا کوئی حادثہ ہوا تھا یا پھر کوئی بیرونی اثر ہے؟ اور بیماری کا علاج بھی بہت ضروری ہے ورنہ نجانے کب تک سیاست دان اس کا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ یہ بات تو طے ہے کہ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا کہ زخمی ہوئے اور سب کو بیماری لگ گئی۔ تاہم اس کا مطلب اتنا ضرور ہے کہ بیرونی اثرات بیں۔ اثرات کا مطلب سایہ تو ہو نہیں سکتا کیونکہ سیاست دان بنگالی بابا نہیں جو کالا جادو کردیں اور لوگوں کی یادداشت سے پچھلی کارکردگی ختم ہوجائے۔
بیرونی اثر دراصل ایک ایسی ہوا ہے جو پچھلے کئی سال سے چل پڑی ہے اور وہ ایسے کہ جو کچھ کروانا ہے، الیکشن سے پہلے ہی کروا لو؛ اس کے بعد تو کچھ ہو نہیں سکتا! یہ بات اتنی عام ہوچکی ہے کہ جب ووٹ لینے آتے ہیں تو ذہن میں صرف وہ کام یاد رہتے ہیں جو الیکشن سے پہلے پہلے کروانے ہوتے ہیں یا پھر بیرونی اثر وہ امید ہے جسے غالب نے یوں بیان کیا ہے:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
یا پھر بیرونی اثرات وہ جذباتی نعرے ہیں جن کی زد میں آکر عوام سب بھول بیٹھتی ہے، بس اتنا یاد رہتا ہے کہ وہ زندہ ہے، فلاں زندہ باد اور تبدیلی آرہی ہے وغیرہ۔ یا بیرونی اثرات شعور کا نہ ہونا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب عقل پر پردہ پڑجائے تو بعید نہیں کہ کچھ بھی سرزد ہوجائے۔ یا پھر بیرونی اثرات وہ اندھی محبت ہے جس میں محبوب کی خامیاں نظر نہیں ہی آتیں کہ وہ چاہے جو بھی زخم دے کر گٰیا ہو، جب بھی لوٹا اس کےلیے در کھلا ہے۔ اتنی دریا دلی تو پاکستانی اصل محبت میں بھی نہیں کرتے، یہی سننے کو ملتا ہے کہ بس جو دل سے اتر گیا، وہ اتر گیا۔ کوئی راستہ ممکن ہے اب؟
اس بیماری کا علاج صرف خواب سے نکل کر حقیقت میں آنا ہے اور اس پٹی کا اتاردینا ہے جو آنکھوں پر بندھی ہے۔ عقل و شعور کا وہ تعویذ ہے جسے گلے میں لٹکا کر تمام بیان کردہ بیرونی اثرات ختم ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرز شارٹ ٹرم میموری لاس کا علاج یہ بھی بتاتے ہیں کہ یاد کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ الیکشن کے دنوں میں قوم کو چاہیے کہ وہ بھی یاد کرنے کی کوشش کرے کہ ماضی قریب میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post ذرا یاد کیجیے… اور یاد بھی رکھیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2GJIV7W
No comments:
Post a Comment