’’اے پانی والا بابا!‘‘ منہ میں پان رکھے، زور دار پچکاری مارتے ہوئے، بس ڈرایئور نے آواز لگائی تو سڑک کے بیچ کھڑے ایک پینٹ شرٹ پہنے انتہائی عمر رسیدہ شخص نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا۔
’’ذرا پانی تو پلانا،‘‘ وہ بولا۔
’’یہ لو جی۔‘‘
’’ارے واہ! کیا ٹھنڈا ہے… ہمم،‘‘ وہ بولا۔
’’یہ لو!‘‘ اس نے پانچ روپے کا سکہ پانی والے بابا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، جو اس تپتی ہوئی دھوپ میں بیچ سڑک کھڑا لوگوں کو پانی پلا رہا تھا؛ جیسے خود گرمی جذب کر کے دوسروں کو ٹھنڈک دے رہا ہو۔
اس کے چہرے پر نمایاں واضح اور گہری جھریاں اس کی طویل عمری کا پتا دے رہی تھی۔ اپنی عمر کا بہت وقت شاید وہ کاٹ چکے ہیں یا گزار چکے ہیں۔ اس کڑی دھوپ میں جس کی تپش سے ہم نوجوان بھی پناہ مانگتے ہیں، اسی چلچلاتی دھوپ میں کھڑا یہ بابا… کام کرنا مجبوری تو ہوسکتی ہے لیکن خواہش نہیں۔ آخر ایسی کیا بات ہے جو اسے اس بڑھاپے میں کام کرنے پر مجبور کررہی ہے؟ ایک ایسی عمر میں کہ جس میں لوگ ریٹائر ہو کر سوچتے ہیں کہ چلو اب آرام کے دن شروع ہوئے۔
کیا ان کی اولاد نکمی ہے یا مہنگائی اس حد تک بڑھ گی ہے کہ ایک گھر میں چار کمانے والوں کی کمائی بھی کم پڑ گئی ہے اور انہیں اس عمر میں بھی کمانا پڑ رہا ہے؟ کیا وہ لوگ اس بات کا احساس کر رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں اس مملکت کی باگ ڈور ہے؟ یا وہ اپنے بند کمروں اور ایوانوں تک محدود ہیں اور اے سی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ جو کبھی چند گھنٹے بھی اس آگ برساتی گرمی میں اے سی کے بغیر گزارنا پسند نہ کریں، انہیں یہ بےبس، لاچار اور مجبور لوگ نظر نہیں آتے جو اس بڑھاپے میں بھی عزت سے کمانا بہتر سمجھتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہاتھ پھیلائیں۔
آخر ایسی کیا مجبوری ہوسکتی ہے؟ یہ جاننے کی خواہش مجھے ان تک لے آئی۔
پانی والا بابا: ’’کیا بتاؤں بٹیا! بڑی مہنگائی ہو گئی ہے، کمانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
’’آپ کیا اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں؟ مطلب صرف آپ ہی کماتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
پانی والا بابا: ’’نہیں، ایک بیٹا ہے۔ وہ بھی مہینے میں کچھ کما لیتا ہے اور بچیاں بھی کچھ جوڑ لیتی ہیں۔‘‘
’’جب اولاد کماتی ہے تو آپ کو اس عمر میں اتنی محنت کرنے کی کیا ضرورت؟‘‘ میں نے وہ سوال پوچھ ہی ڈالا جو مجھے ان تک لے آیا تھا۔
پانی والا بابا: ’’اب گھر ایسے تھوڑی چلتے بٹیا کہ ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوتے تھے۔ اب تو دس کمائیں گے تو کھائیں گے،‘‘ وہ مسکرا کر بولے۔
ان کی بات میں بڑی گہرائی تھی۔ چند لمحے تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ اب کیا بات کروں۔
’’لیکن پھر بھی کسی بیٹے یا بیٹی کو تعلیم دلوائی کہ آپ کا بوجھ آٹھا سکے،‘‘ میں نے کہا۔
پانی والا بابا: ’’ارے بٹیا! ایک بیٹے کو بڑے شوق سے پڑھایا تھا، یہ سوچ کر کہ شاید ہمارے بھی دن پھر جائیں گے۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ بی کام کیا اس نے، بہت نوکری ڈھونڈی، نہیں ملی، تو بیچارے کو میں نے کال سینٹر چپراسی میں لگوادیا۔ اب بس چار چھ ہزار کمالیتا ہے۔‘‘
’’کوئی ٹیوشن بھی تو پڑھا سکتا تھا،‘‘ میں نے سوال اٹھایا۔
پانی والا بابا: ’’نہیں بیٹی، کچے کے علاقے میں کون ٹیوشن پڑھنے آئے گا؟ لوگ کھالیں تو بڑی بات ہے۔ پڑھے گا کون؟‘‘
ان کے سوالات نے میرے سوال ختم کردیئے۔ ان سیاست کے علمبردار حکمرانوں سے کوئی پوچھے تو کہ یہ بے تحاشہ مہنگائی اور بے روزگاری کا بوجھ بھی ان کی بنائی ہوئی سڑکیں اٹھائیں گی یا ان گنت قسم کی ان کی امیدوں بھری تقاریر جو نہ کسی غریب کا پیٹ پال سکتی ہیں نہ اسےنوکری دلوا سکتی ہیں۔ لیکن ان کے ناتواں کندھے ضرور اس بوجھ سے عاجز آگئے ہیں۔
یہ سڑکوں پر سسکتی ہوئی زندگیاں انہیں نظر نہیں آتیں، جو روز و شب کے گزرنے کی اور صبح کے روشن ہونے کی منتظر ہوتی ہیں۔
جو اپنی زندگی کے اسّی سال تک محنت مشقت کرنے کے باوجود اس بڑھاپے میں بھی اپنے گھر کا کفیل ہے، اپنی اولاد کو پڑھانا اس کی ذمہ داری تھی لیکن اس کی اولاد کو نوکری دینا اس ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مہنگائی کو قابو کرکے سستی اشیاء مہیا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
الیکشن کے وقت ووٹ مانگتے ہوئے انہیں یہ عوام یاد آجاتے ہیں کہ ووٹ ڈالنا انکا حق ہے؛ وہ اس حق کا استعمال کریں، لیکن الیکشن میں جیت کے بعد انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کے فرائض کیا ہیں۔ وہ حقوق یاد نہیں رہتے جو اس عوام کے ان پر ہیں، جنہیں نباہنا ان کی ذمہ داری ہے۔ کاش اب اس ملک کے حکمران ایک دوسرے کے بجائے اس عوام کا بھی سوچیں کہ یہ حکمران عوام کے تابع ہیں؛ عوام ان کے نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post پانی والا بابا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NZqwYC
No comments:
Post a Comment