سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی بہ دولت بہت سے ایسے کام اب ممکن ہوچکے ہیں، جو ماضی میں ناممکن تصور کیے جاتے تھے۔ سائنس داں شب و روز تحقیق میں مصروف ہیں اور نت نئے انکشافات اور ایجادات سامنے آرہی ہیں۔
مغربی دنیا، بالخصوص امریکا میں مجرموں کا سراغ لگانے اور انہیں گرفت میں لینے کے نئے اور مؤثر سائنسی طریقوں پر تحقیق ہورہی ہے اور ان ریسرچ پروجیکٹس کے لیے حکومتیں فنڈز بھی فراہم کررہی ہیں۔
دو برس قبل محققین نے ایسی ٹیکنالوجی ڈیولپ کی تھی، جس کے ذریعے کئی سو میٹر کے فاصلے سے آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرکے پتا لگایا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص فوری طور پر جرم کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا۔ یہ ٹیکنالوجی امریکا میں ایئرپورٹس پر نصب کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔
چہرے سے جرم کرنے کے ارادے کا پتا لگانے کے ساتھ ساتھ ماہرین مجرموں کا سراغ لگانے کے نئے طریقے دریافت کرنے پر بھی کام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کولراڈو یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم نے اہم کام یابی حاصل کی ہے۔ فنگر پرنٹس مجرم تک پہنچنے کے لیے بہت آسان اور سب سے اہم راستہ ہیں۔
کئی ارب کی آبادی میں سے کسی بھی دو انسانوں کی انگلیوں کے نشانات ایک جیسے نہیں ہوتے، اسی لیے جائے وقوع سے ملنے والے فنگر پرنٹس مجرم کا سراغ لگانے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان جس چیز کو چھوتا ہے، اس پر اس کے فنگر پرنٹس کے علاوہ جراثیم منتقل ہو جاتے ہیں۔
ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی جلد پر اور جسم کے اندرونی حصوں مثلاً آنتوں کے علاوہ منہ، ناک اور کانوں میں بھی مختلف اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے مجرم تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اسی ٹیم نے اس سے پہلے انکشاف کیا تھاکہ ایک انسان کے صرف ہاتھوں پر 150 اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔
حالیہ تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ دو افراد کے ہاتھوں پر پائے جانے والے بیکٹیریا کی صرف 13 فی صد اقسام آپس میں مماثلت رکھتی ہیں۔ یعنی فنگر پرنٹس کی طرح ہر انسان کی جلد پر موجود جراثیم بھی مختلف ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ پروفیسر Noah Fierer کے مطابق یہ جراثیم ہمارے جسم سے علیحدہ ہوکر فضا میں موجود رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پرفیوم کی خوش بو کچھ دیر تک فضا میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خوش بو کا اثر چند منٹوں تک رہتا ہے، لیکن ہمارے جراثیم دو ہفتے تک فضا میں موجود رہتے ہیں۔ ان کی شناخت خصوصی آلات کے ذریعے ممکن ہے۔
تجربے کے دوران سائنس دانوں نے نو افراد کا انتخاب کیا اور انہیں چھوٹی سی عمارت میں مختلف سرگرمیاں انجام دینے کے لیے کہا۔ بعد ازاں تحقیقی ٹیم کے تیار کردہ آلات کے ذریعے عمارت کے مختلف حصوں میں نو اقسام کے جراثیم پائے گئے۔
حتیٰ کہ ان افراد کے زیرِ استعمال کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر بھی نو اقسام کے جراثیم موجود تھے۔ ماہرین کے مطابق مجرموں کا سراغ لگانے میں جراثیم کی شناخت کرنے والی نئی ٹیکنالوجی بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب مجرم اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ جائے وقوع پر ان کی انگلیوں کے نشانات نہ مل سکیں، لیکن جراثیم کو اپنے جسم سے علیحدہ ہونے سے روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ خصوصی آلات کی مدد سے ان جراثیم سے ڈی این اے حاصل کرنے کے بعد اس کا موازنہ مشتبہ افراد کے ڈی این اے سے کیا جاسکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ جراثیم کسی بھی طریقے سے جلد سے علیحدہ نہیں ہوتے اور ان سے متعلق کوئی احتیاط اور سائنسی طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے 70سے90 فی صد تک نتائج حاصل ہوئے ہیں اور سو فی صد درست نتائج کے حصول کے لیے مزید تجربات جاری ہیں۔
The post ’’بیکٹیریا پرنٹ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KRTKGC
No comments:
Post a Comment