اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی سیاسی و جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے جا رہی ہے، یہ شاید مسلسل دوسری مرتبہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں دو منتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی ہو۔
اس سے قبل دوہزار تیرہ کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) اس سے قبل دو بار اقتدار میں آئی مگر دونوں مرتبہ اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی حکومت کا تختہ دھڑن ہوا، تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نواز لیگ بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرے گی۔
اگرچہ نواز لیگ کے موجودہ دور حکومت کے دوران بھی کئی ایسے مواقع آئے جہاں محسوس ہو رہا تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی حکومت ختم ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا اگرچہ اس عرصے کے دوران حکومت کو پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے قربانی اور تاحیات نااہلی کی سزا سمیت کئی وفاقی وزراء کی قربانی دینا پڑی مگرحکومت کو گرنے نہ دیا گیا۔
اس حوالے سے یوں کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا کہ نواز لیگ نے پارٹی قائد سے لیکر کئی وزارء کی قربانیوں کے ذریعے حکومت بچائی۔ ورنہ دوہزار چودہ کے دھرنوں، فیض آباد دھرنا ، پاناما لیکس اور ڈان لیکس کے واقعات سے لگ رہا تھا کہ حکومت واقعی مدت مکمل نہ کر سکے گی لیکن ان تمام مشکلات اور چینلجز کے باوجود نواز لیگ گرتے، اٹھتے اور لڑکھڑاتے ہوئے اپنی مدت کی تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے اور اب آئندہ چند روز میں اپنی آئینی مدت مکمل کرکے عنان حکومت نگران حکومت کو سونپ دے گی جو انتخابات میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو اقتدار سونپے گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ آئندہ وفاق میںکس جماعت کی حکومت ہوگی۔کیا نواز لیگ دوبارہ وفاق میں حکومت بنا سکے گی یا اس بار عمران خان وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن پر آئیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفاق میں اسی جماعت کی حکومت بنے گی جو پہلے پنجاب کو فتح کرے گی، فاتح پنجاب کے سر ہی وفاق میں حکومت اور وزارت عظمیٰ کا تاج سجے گا۔ پنجاب میں اس وقت دو ہی جماعتیں نمایاں ہیں ۔
پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ نواز کی پوزیشن بہت بہتر ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ آمدہ انتخابات میں بھی دوہزار تیرہ کے انتخابات کی تاریخ کو دہراتے ہوئے پنجاب سے مخالفین کا مکمل صفایا کرے اور پنجاب کے ساتھ وفاق میں بھی حکومت قائم کرے لیکن اب کی بار حالات شاید مختلف ہو ۔ نواز شریف کی نااہلی اور حکمران جماعت کی جانب سے فوج اور عدلیہ پر جاری تنقید اور پنجاب میں تحریک انصاف کے اثرورسوخ میں اضافہ کے باعث اس تاریخ کو دہرانا شاید ممکن نہ ہو۔ اس بار عمران خان بھی یہ بات سمجھ چکے ہیںکہ وزارت عظمیٰ تک جانے کا واحد راستہ صرف پنجاب سے ہوکر آگے نکلتا ہے۔
اس کے علاوہ اور کوئی ایسا دوسرا راستہ نہیں جس سے گزر کر وزارت عظمیٰ تک جا پہنچے، اسی نکتے کو سمجھتے ہوئے عمران خان نے اگلے انتخابات کیلئے پنجاب کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے، جوڑ توڑ کی کوششیں تیزی سے جاری ہے، دیگر جماعتوں سے الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کرا رہے ہیں جبکہ گذشتہ دنوں تاریخی منٹو پارک (مینار پاکستان) پر تاریخی جلسہ کرکے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اب پنجاب میں تبدیلی آنے والی ہے۔ تحریک انصاف نے دوسری طرف حال ہی میں نواز لیگ سے علٰیحدگی اختیار کرکے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پارٹی بنانے والے اراکین کو بھی اپنے ساتھ ملانے اور پی ٹی آئی میں ضم کرنے کا اعلان کرکے نہ صرف جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے بلکہ نواز لیگ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت ختم ہونے کے بعد پنجاب میں کیا مزید تبدیلی آسکتی ہے۔
کیا مزید لوگ پارٹی چھوڑ کر ادھر ادھر جائیں گے؟ چوہدری نثار کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کیا ہوگا، چوہدری نثار کی جانب سے آزادانہ حیثیت میں الیکشن لڑنے کی صورت میں پارٹی پوزیشن کس قدر متاثر ہوگی، ٹکٹوں کی تقسیم پر کیا اختلافات پیش آئیں گے۔ یہ وہ نکات ہیں جن کو مد نظر رکھ کر آئندہ انتخابات میں پارٹی پوزیشن کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ان دونوں جماعتوں میں سے کوئی بھی پنجاب میں بھاری اکثریت حاصل نہ کرسکی تو پھر مخلوط حکومت قائم ہوگی جس میں ممکنہ طور پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمہ وقت دستیاب آزاد امیدوار حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے اور دوسری طرف نواز لیگ کے ساتھ ایم ایم اے اتحادی ہو گی اور بوقت ضرورت ہمہ وقت وہی آزاد امیدوار کارآمد ثابت ہوں گے۔
پنجاب کے بعد اگر کوئی صوبہ وفاق میں حکومت قائم کرنے کیلئے ان دونوں جماعتوں کیلئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ صوبہ خیبر پختونخوا ہے جس میں نواز لیگ اور تحریک انصاف دونوں کا کافی اثرورسوخ ہے اور دونوں پارٹیاں محنت کرتی نظر آتی ہیں۔ سندھ میں حالات مختلف ہیں، اندرون سندھ میں شاید پیپلز پارٹی حسب دستور اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھ پائے لیکن کراچی میں اس بار ایم کیو ایم سمیت کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی، ایم کیو ایم ٹکڑوں میں بٹنے سے ان کی پوزیشن بھی پہلے کے مقابلے میں اب کافی کمزور ہوگی اورکراچی کی نشستوں کی بنیاد پر وفاق میں حکومت بنانا مشکل ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف باربار یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہوگا، اب خلائی مخلوق کی اصطلاح کس کیلئے استعمال کی گئی ہے وہ میاں نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں یا وہ جانتے ہیں جن کیلئے کہا گیا ہے۔ ویسے گذشتہ دنوں وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے سے ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے دوران حالات خراب ہو سکتے ہیں، انتخابی مہم کے دوران بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں اور یہ کوششیں انتخابی سرگرمیوں اور بروقت انتخابات کرانے کی کوششوں کو سبوتاژ بھی کر سکتی ہیں۔ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی ابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ آور نے اپنا تعلق مذہبی تنظیم تحریک لبیک سے بتایا ہے۔
تاہم اس تنظیم نے حملہ آور سے اعلانِ لاتعلقی کیا ہے لیکن اس کے برعکس حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے بڑی معنی خیز انداز اور دبے لفظوں میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والے لوگوں کو ہزار ہزار روپے دیے جائیں گے تو اس کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔ نواز شریف نے گذشتہ دنوں میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت کے کارکنوں کو ایک، ایک ہزار روپیہ کیوں دیا گیا۔
اس موقع پر میاں نواز شریف نے فوج کے خفیہ اداروں کا نام لیے بغیر کہا کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف سے بارہا سوالات کیے گئے لیکن اس کا جواب نہیں ملا ۔ انھوں نے یہ بھی عندیہ دیدیا کہ اگر ان کی جماعت 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوبارہ حکومت بنائے گی تو وہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی اور ججز کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنسز کے طریقہ کار کو تبدیل کریں گے۔ واضح رہے کہ ارکانِ پارلیمان کے حلف میں مبینہ تبدیلی کے خلاف مذہبی جماعت لبیک یا رسول اللہ کے کارکنوں کی طرف سے دیے گئے دھرنے کے اختتام پر ایک سکیورٹی ادارے کی طرف سے مبینہ طور پر دھرنے کے شرکا میں رقم تقسیم کی گئی تھی۔
The post اقتدار کی کنجی، دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی توجہ پنجاب پر مرکوز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rxe7R0
No comments:
Post a Comment