’’قاسم بھی جارہا ہے ہمارے ساتھ ؟‘‘ میں نے اشرف بھائی سے ہفتہ واری چھٹی کے پروگرام کو حتمی شکل دیتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں جارہا ہے، مگر وہ آج کل بہت پریشان ہے‘‘۔ اشرف بھائی نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’آج کل اس کی اپنی بیوی سے لڑائی چل رہی ہے۔ دراصل وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی والدہ کی خدمت کرے اور بیوی اس پر تیار نہیں ہے۔ نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے روکا ہے، آپ بھی تھوڑا سمجھائیے گا۔‘‘ میری سوالیہ نظروں کے جواب میں اشرف بھائی نے وضاحت کی۔ ’’جی ضرور‘‘۔ میں حیران ہوتے ہوئے بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔
قاسم ایک پڑھا لکھا، نہایت سلجھا ہوا اور پروفیشنل لائف میں کامیاب آدمی ہے، لیکن ازدواجی زندگی میں وہ بھی روایتی بھیڑ چال کا شکار ہوگیا۔ مگر شائد یہ صرف قاسم کی کہانی نہیں ہے، ہمارے ہاں اکثر لوگ اس مسئلے کا شکار ہیں۔ خاندانی جھگڑوں سے متعلقہ عدالتوں کے اعدادوشمار کے مطابق ہر روز 900 سے 1000 کیسز عدالتوں میں آتے ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے اور ہم دن بدن تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے ہمیں ڈگری تو دیتے ہیں مگر اچھا انسان نہیں بناتے۔ ڈگری لے کر بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کیسے گزارنی ہے۔ ہمارے پاس دنیا بھر کا علم ہوگا مگر ہم اس بات سے نابلد ہوں گے کہ شرعی لحاظ سے ہماری بیوی کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے والدین کی خدمت کرے۔
ہم محمدﷺ کے نام پر جان دینے پر تیار ہوجائیں گے، مگر آپ ﷺ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے شرمائیں گے (مفہوم):- ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سب میں اپنی بیوی بچوں سے اچھا سلوک کرتا ہوں‘‘۔
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے مدرسے کے فارغ التحصیل طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ شوہر کے ذمہ ہے کہ بیوی کو الگ گھر لے کر دے۔ اگر اتنی قدرت نہیں ہے تو گھر کے اندر الگ پورشن بیوی کے لیے ہو، اور گر اتنی بھی قدرت نہیں ہے تو ایک کمرہ ایک باتھ الگ سے بیوی کے لیے ہو اور بھائی اگر اتنی بھی قدرت نہیں ہے تو برائے کرم ایک تسبیح لے کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرو، کسی کی بہن، بیٹی کی زندگی خراب نہ کرو‘‘۔
آخر میں میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اگر سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ کا دل بیوی سے اچھا سلوک کرنے پر نہ مانے تو ہمت کرکے عید سے قبل عدالتوں کا چکر لگالیں۔ فیملی کورٹس کے باہر ایسے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملیں گے کہ طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اور مزید تقویت حاصل کرنی ہو تو کسی ایسے بندے سے مل لیں جس نےٹوٹے ہوئے خاندان میں پرورش پائی ہو۔ مجھےیقین ہے آپ میری باتوں سے اتفاق کریں گے۔
چلتے چلتے چند گزارشات ملکہ عالیہ کی خدمت میں:
1۔ بیوی کو ملکہ کا درجہ وہی شخص دے گا جو عمل سے عاشق رسول ﷺ ہو، اس لیے اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کو ملکہ کا درجہ ملے تو کوشش کریں کہ آپ کے شوہر عمل سے عاشق رسول ﷺ بن جائیں۔
2۔ اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کےلیے تاجدار مدینہ راحت و قلب سینہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا مطالعہ کریں اور پیروی کی کوشش کریں۔
3۔ اپنے شوہر کے کان رشتے داروں کی غیبت سے بھرنے کے بجائے نیک لوگوں کے واقعات سنا کر بھریں۔
4۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ کی یہ خواہش اور کوشش رہی کہ طرز زندگی اغیار کے جیسا ہو اور آپ ملکہ عالیہ کے منصب پر فائز ہوں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post بیوی نہیں ملکہ ہے یہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2LDvnle
No comments:
Post a Comment