سینیٹر کرشناکماری: روشن خیال پاکستان کی پہچان - Mr.IT

Mr.IT

Technology Education

Post Top Ad

Responsive Ads Here
سینیٹر کرشناکماری: روشن خیال پاکستان کی پہچان

سینیٹر کرشناکماری: روشن خیال پاکستان کی پہچان

Share This

سینیٹ انتخابات کا شور شرابہ تمام ہوا۔ انتخابات میں کئی اپ سیٹ بھی دیکھنے کو ملے، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پرشرمناک ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ خریدنے کے الزام عائد کر رہی ہیں۔ ہم صحافیوں کےلیے یہ الزامات معمول کی باتیں ہیں جو انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں لگاتی رہتی ہیں۔ میرے نزدیک سینیٹ الیکشن کا بڑا اپ سیٹ ایک دلت ہندو خاتون کرشنا کماری کی کامیابی ہے جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔

میں نے جب کرشناکماری کی کامیابی کی خبرسنی تواس کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق ہوا۔ فوراً گوگل کی مدد لی اور کچھ قومی اخبارات کی ورق گردانی کرنا پڑی جس کے بعد کرشنا کماری کے بارے میں کئی اہم معلومات مل گئیں، میں کرشنا کماری کے بارے میں اس لیے کچھ جاننا چاہتا تھا کہ ان معلومات کو یکجا کرکے دوسروں کے ساتھ شیئر کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ یہ ہے پاکستان کا حقیقی روشن خیال چہرہ…

اس الیکشن میں جہاں ایک بہت بڑا مذہبی نام، فادر آف طالبان کہلانے والی شخصیت مولانا سمیع الحق صاحب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہیں عمرکوٹ کے علاقے ننگر پارکر سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری کوکامیابی نصیب ہونا بھی انتہائی اہم اور قابلِ ذکر ہے۔

فروری 1979ء کو جگنو کولہی کے گھر جنم لینے والی کرشنا کماری کا سینیٹ الیکشن جیتنے تک کا سفرآسان نہیں ہے۔ وہ جس مقام پر آج پہنچی ہیں اس کے پیچھے عزم و ہمت اور ولولوں کی کئی داستانیں ہیں۔ غربت میں آنکھ کھولنے والی کرشنا کماری جب تین سال کی تھیں تو انہیں اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ تین سال تک ضلع عمر کوٹ کے علاقے کنری کے ایک زمیندار کی نجی جیل میں گزارنے پڑے۔ پھر یہ ہوا کہ نہ وہ جیل رہی اور نہ اس جیل میں قید رہنے والی لڑکی کے پاؤں سے بندھی بیڑیاں۔ ظالم وڈیرے کی قید سے رہائی کے بعد اس لڑکی نے اپنے سر کی اجرک کو پرچم بنا لیا اور اب یہ پرچم پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں لہرانے جا رہا ہے۔

تھر کے صحراامیں موسم کی گرم و سرد ہواؤں کے تھپیڑے برداشت کرتی کرشنا کماری جب 16 برس کی ہوئی تواس کی شادی لال چند نامی شخص سے کردی گئی۔ شادی کے وقت کرشنا کماری نویں کلاس کی طالبہ تھی، کرشنا کماری نے اپنے شوہر سے زندگی بھرساتھ نبھانے کے عوض صرف یہ اجازت مانگی کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھنے دیا جائے، شوہر نے اس کی یہ خواہش مان لی۔ اس طرح شادی کے بندھن میں بندھنے کے باوجود کرشنا کماری نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر 2013 میں سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ کرشنا کماری نے تھر اور قریبی علاقوں میں غریب لوگوں کی مدد کےلیے فلاحی اورسماجی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ کرشنا نے پسماندہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے عملی کوششوں کا آغازکیا۔ اس کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کروایا جائے۔ اپنی ان خدمات کی وجہ سے ہندوؤں کی نچلی ترین ذات دلت سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری آج ہزاروں دلوں میں راج کررہی ہیں اور پاکستان کے ایوان بالا میں پہنچ گئی ہیں۔

کرشنا کماری کوسینیٹ کا ٹکٹ دیے جانے کے فیصلے کی خود بلاول بھٹو زرداری اورفریال تالپورنے بھی حمایت کی تھی، بلکہ اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ تھر کی یہ آواز سینیٹ میں گونج سکے۔ کرشنا کماری کے خاندان کے کئی دیگرافراد بھی سیاست سے وابستہ ہیں، ان کے بھائی یونین کونسل بیرانو کے چیئرمین ہیں۔ کرشنا بھی اپنے بھائی کے ساتھ چند برس پہلے پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں۔ ایک قومی اخبارمیں کرشنا کماری کے خاندان کے حوالے سے بڑی اہم اور تاریخی معلومات بھی ملی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو کرشنا کے خاندان میں ایک میناوتی بھی تھی۔ میناوتی انگریزوں کے خلاف لڑنے والے عظیم سندھی ہیرو روپلو کولھی کی شریکِ حیات تھیں۔ 1857ء میں جب انگریزوں نے ننگر پارکر کے راستے سندھ پر حملہ کیا تومزاحمت کرنے والے ٹھاکر راجپوت مکھیہ رانا کرن سنگھ کے اگلے دستوں کی کمانڈ روپلو کولھی کے ہاتھوں میں تھی۔ 22 اگست 1859ء کو جب انگریز روپلو کولھی کو پکڑ کر تختہء دار پر لٹکانے کےلیے لے گئے تو میناوتی کی آواز اس کے کارون جھر پہاڑ جیسے مضبوط ارادوں کو کچھ اور جلا بخش رہی تھی۔

انگریز ٹھاکر رانا کرن سنگھ کا ٹھکانہ بتانے کے صلے میں روپلو کی جان بخشی کرنے کو تیار تھے۔ روپلو بدترین تشدد کے باوجود کچھ نہیں بولا۔ وہ تو وطن کے لیے جان دینے چلا تھا، وطن سے غداری اس کے خمیر میں نہیں تھی۔ ایسے میں میناوتی کی آواز کہ ’’روپلا! اگر تو نے انہیں کچھ بتایا تو پارکر کی کولھنیاں مجھے طعنے دیں گی، آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھو غدار کی بیوی۔ میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں، اپنے آپ کو بیوہ توقبول کر سکتی ہوں, لیکن مجھے ایک غدار کی بیوی ہونا قبول نہیں۔‘‘

اور پھرببول کے پیڑ سے لٹکی ہوئی روپلو کی لاش نہ صرف اس کی شریکِ حیات میناوتی کو کولھنیوں کے طعنوں سے بچا گئی بلکہ رہتی دُنیا کو یہ سبق بھی سکھا گئی کہ ملک وقوم کےلیے اپنی جان بھی قربان کرناپڑے تواس سے دریغ نہیں کرناچاہیے۔ آج اسی خاندان کی سپوت اپنی اجرک کو ہمت واستقامت کا نشان بنائے ایوان بالامیں پہنچی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ صحرائے تھر میں غریبوں اور مستحق افراد بالخصوص خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والی کرشنا کماری سینیٹ میں کیا کردار ادا کر پاتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post سینیٹر کرشناکماری: روشن خیال پاکستان کی پہچان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2FmfXOK

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages