جذباتی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک - Mr.IT

Mr.IT

Technology Education

Post Top Ad

Responsive Ads Here
جذباتی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک

جذباتی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک

Share This

’’میں آج بہت دکھ میں ہوں،‘‘ مریض نے آہ بھر کے کہا۔

’’اچھی بات ہے،‘‘ ڈاکٹر نے اطمینان سے جواب دیا۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا‘‘ وہ برہم ہوا۔

’’دیکھو بھئی سیدھی سی بات ہے، میں تمھارے اندرونی و بیرونی جھگڑے سن سن کر خود آج کل دکھ میں ہوں، سو اپنے مسائل کی پوٹلی اٹھاؤ اور چلتے بنو۔‘‘ بے مروتی عروج پہ تھی۔

’’تم کتنے selfish ہو ڈاکٹر‘‘ اس نے شکوہ کیا۔

’’اور تم کتنے چغل خور‘‘ جوابی فائر داغا گیا۔

’’کیا آج لڑائی کے موڈ میں ہو؟‘‘ بلاخر ہتھیار ڈال کر مریض نےنرم آواز میں پوچھا۔

’’معاملہ کچھ یہ ہے کہ میں نے تہیہ کیا ہے کہ آج کے بعد کسی کے خلاف شکایت سنوں گا، نہ خاندانی لڑائیوں کا حصہ بنوں گا۔ یہ چغلی کے زمرے میں آ تی ہیں، کوئی اور بات ہے تو کرو‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ قطعی تھا۔

’’اور بات؟؟ تو یار… مسئلہ تو سن لو میرا‘‘ وہ التجائیہ لہجے میں بولا۔

’’بولو‘‘ ڈاکٹر نے گہری سانس بھرکے مختصراً کہا۔

’’میرے باس نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور میں…‘‘

’’ایک منٹ، اپنےدماغ سے تمام شکایتیں نکالو ذراشاباش! اور باقی دیکھ کے بتاؤ کیا پڑا ہے‘‘

’’باقی؟ باقی تو کچھ نہیں‘‘ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔

’’اور کوئی بات نہیں کرنے کو؟‘‘ حیرانی سے پوچھا گیا۔

’’نہیں‘‘ وہ قطعی لہجے میں بولا۔

’’چچ چچ… تمھارادماغ تو نِرا کباڑ خانہ ہے‘‘ ڈاکٹرتاسف سے بولا۔

’’بات کو گھماؤ مت ڈاکٹر! شکایتیں بھی تو ہوتی ہیں۔ زندگی سے، لوگوں سے، پھرکیا کریں؟‘‘

’’ٹھیک فرمایا آپ نے۔ اصل میں ھم سب کو باقی سب سے شکایت ہےاور ہم یہ شکایات اللہ کے سامنے گوش گزارتے ہیں، پھر بندوں کے سامنے۔ بلکہ نہیں، ہم زیادہ سے زیادہ باقی سب کے ساتھ شئیر کرتے ہیں، سوائے اس کے جس سے ہمیں شکایت ہے۔ اور یہ شئیرنگ چلتے چلتے اس انسان تک بھی پہنچ جاتی ہے جس نے ہمیں شکایت کا موقع دیا تھا۔ نتیجتاً اسے بھی ھم سے شکایت ہو جاتی ہے اور same cycle چلنا شروع ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر ذرا رک کر دوبارہ گویا ہوا۔

’’جس طرح زمین پر بہت سارے waste material سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے ایسے ہی شکایات کا انبار جذباتی آلودگی بڑھا رہا ہے، اور یہ ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ بلاخر وہ بول اٹھا۔

’’کیوں کہ یہ ہمارے رشتوں ناطوں، سوچوں، اور سب سے بڑھ کر ہماری مثبت اپروچ کو تباہ کرتی ہے۔ ہمیں منفی انسان بناتی ہے۔ اور تمھیں پتا ہےاس دنیا میں سب سے خطرناک کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

’’ہائیڈروجن بم،‘‘ مریض فوراً بولا۔

’’اس سے بھی زیادہ؟‘‘

’’اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ھے؟‘‘ وہ حیرت سے بولا۔

’’ایک منفی سوچ رکھنے والا انسان ‘‘ مسکرا تےہوئے جواب آیا۔

’’وہ کیسے؟‘‘ مریض کے لہجے میں بے یقینی تھی۔

’’وہ ایسے کہ بم بیچارہ تو خاموشی سےکہیں پڑا ہوتا ہے، اسے چلانے کا فیصلہ ایک ایسا انسان ہی کرتا ہے جو مایوس ہے اور حالات کے سدھار کی توقع ہی نہیں رکھتا۔ وہ سوچتا ہے مار دو یا مر جاؤ۔‘‘

’’بعض اوقات ایسی صورتحال ہوتی ہے جب ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا‘‘ مریض نے مدھم لہجے میں کہا۔

’’کسی بھی صورتحال میں کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہوتا ہے۔ پاؤلو کوہلو (Paul coelho) کہتا ہے کہ ’’ایک بند گھڑی بھی 24 گھنٹے میں دو بار ٹھیک وقت بتاتی ہے لیکن انسان اس صحیح وقت کا انتظار کرنے کے بجائے گھڑی کو اتار کے دے مارتا ہے اور پھر کہتا ہے دیکھا… میں کہتا تھا ناں کہ اچھا وقت آ ہی نہیں سکتا۔ اوہ اللہ کے بندے! وقت تو تمہاری منفی سوچ اور جلد بازی نے گنوایا، اب ریزہ ریزہ گھڑی میں کیا خاک وقت دکھے گا۔‘‘

’’تو پھر کیا کیا جائے؟‘‘ مریض کے چہرے پر بے چارگی تھی۔

’’پہلے نمبر پہ تو شکایت کرو ہی نہ، درگزر کرو۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ اس انسان نے کن وجوہات کی بنا پر ایسا کیا۔ ہم سب لوگ بہت سے مسائل کو اٹھائے زندگی گزارتے ہیں اور ان کا اثر بھی ہم پر پڑتا ہے۔ تو ہمدردی رکھو اور ترس کھاؤ اس انسان پہ جس کو حالات کی وجہ سے اچھے اخلاق کا ثواب کمانا نصیب نہ ہو سکا۔ پھر اگر معاملہ کی نوعیت ایسی ہے کہ اس پہ بات ہو سکتی ہے تو جس سے شکایت ہے سیدھا اس کے پاس جاؤ اور مناسب الفاظ میں بتا دو‘‘ ۔

’’اچھا… اور اگر اگلا بندہ کچھ اٹھا کے سر پہ دے مارے تو؟‘‘

’’نہیں مارے گا‘‘ ڈاکٹر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ اگر آپ کی شکایت حقیقی ہے اور آپ کا اس معاملے سے تعلق بھی ہے تو وہ اندر ہی اندر ضرور اپنی غلطی کا احساس ضرور کرے گا، سامنے بے شک نہ کرے۔ اور اس کے اگلے رویہ میں تبدیلی بھی آئےگی لاشعوری طور پر۔

’’کچھ لوگ نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے سوا باقی سب غلط ہیں۔ بس بلا وجہ کی تنقید آتی ہے ان کو۔‘‘

’’ایسے لوگ قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہوتے ہیں میرے دوست! جو بغیر پیسے لیے آپ کا تنقیدی جائزہ لے کر باریک باریک خامیاں بھی پکڑ لیتے ہیں اور آپ کو working mode میں رکھتے ھیں۔‘‘

’’یہ کیا بات ہوئی۔ اور جو باقی لوگ ان کی شکایتوں سے آپ کا غلط امیج بناتے ہیں وہ‘‘ مریض نے سٹپٹا کر کہا۔

’’سنو۔۔ کسی بے وقوف کے علاوہ کچھ عرصے بعد سب ایک دوسرے کی فطرت جان لیتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس میں بلا وجہ تنقید کی عادت ہے، کیونکہ وہ خود بھی کبھی نہ کبھی بھگت چکے ہوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکرا تے ہوئے مریض کے تاثرات کو انجوائے کیا۔

’’مطلب یہ ہوا کہ… ‘‘ مریض پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

’’مطلب یہ کہ سب کچھ ٹھیک ہے، بس سوچ کا فرق ہے۔ نئی سوچ کے ساتھ جاؤ، تمھیں اپنے باس پہ پیار آئے گا‘‘ ڈاکٹر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور چل دیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post جذباتی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی سے زیادہ خطرناک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2sfCiqL

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages