آج سے ایک سال قبل 20 جنوری2017 کے روز صدارتی عہدے کا حلف اُٹھانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اپنے پہلے ہی صدارتی خطاب میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف تنگ نظری کا اظہار کرتے ہوئے مسلم دنیا کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کا اشارہ دے دیا تھا۔
ٹرمپ کو برسر اقتدار لانے میں روس کا براہ راست ہاتھ تھا کیونکہ ٹرمپ کی شخصیت انتہائی متنازعہ ہے، اس لیے روس نے ایک منصوبے کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے میں کردار ادا کیا تاکہ ٹرمپ آئے دن متنازعہ بیانات اور پالیسیاں جاری کرکے دنیا میں اپنا اور امریکا کا امیج خود ہی خراب کریں اور روس کا راستہ صاف ہو۔
ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلم دنیا کو آڑے ہاتھوں لیا اور آئے دن مسلم مخالف بیانات دینے شروع کردیئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہا پسندی اس وقت اپنی حدوں کو پہنچی جب انہوں نے تنگ نظری کامظاہرہ کرتے ہوئے 27 جنوری 2017 کو متعدد مسلم ممالک سے آنے والے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا اعلان یہ کہتے ہوئے کیا کہ وہ اب دہشت گردوں کو مزید امریکا میں برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مسلم دنیا کےلیے ایک اذیت ناک فیصلہ تھا کیوں کہ اس کا براہ راست اثر امریکی مسلمانوں پر بہت پڑا اور انہیں دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔
ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکی مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف دشمنی کی ایک لہر چل پڑی۔ امریکی صدر نے ہر موقعے پر مسلمانوں کو اپنی تنگ نظری کا نشانہ بنایا اور آئے دن مسلم مخالف پالیسیوں کا اعلان کیا۔ مسلمان اس وقت ہکا بکا رہ گئے جب ٹرمپ نے 7 دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے نے مسلم دنیا کو ایک صفحے پر لا کر تو کھڑا کردیا تھا جس کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی جس کے حق میں 128 ووٹ اور مخالفت میں صرف 8 ووٹ آئے۔ اس سے امریکی صدر ششدر ہوگئے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی تنگ نظری کو مزید وسعت دی۔
ایک سروے کے مطابق تین چوتھائی امریکی مسلمان اس بات کے شاہد ہیں کہ ٹرمپ کا رویہ ان کی طرف غیر دوستانہ اور سخت ہے۔ اس سروے میں حیران کن بات یہ بھی سامنے آئی کہ ہر دس میں سے نو مسلمان، امریکی ہونے پر فخر کرتے ہیں اور اس بار صدارتی انتخابات میں ہر چار میں سے تین مسلمانوں نے ووٹ دیا لیکن اس سب کے باوجود مسلم کمیونٹی کو ہر بار غیر منصفانہ رویّے کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرمپ نئے سال کے پہلے دن بھی مسلمانوں کو نہیں بھولے اور اپنی پہلی ہی ٹویٹ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا، اور اگر مغربی دنیا کی بات کی جائے تو مارچ 2016 سے مارچ 2017 تک برطانیہ سے 143920 مسلم اور اسلام مخالف ٹویٹس کی گئیں۔ ایک ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کے صدر بننے کے ایک سال کے دوران مسلمان 7000 نفرت آمیز جرائم کا نشانہ بنے، جن میں حجاب پہنی خواتین اور داڑھی والے مسلمان متاثرین میں سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد اور مسلم اسکولز پر بھی بارہا انتہاء پسندوں کی طرف سے دھاوا بولا گیا۔
دراصل 9/11 کے بعد جس طرح دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا، اس سے کوئی بشر ناواقف نہیں۔ لیکن ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ امریکا کی خود کی ہی پیداوار تھے جنہیں امریکا نے پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ آور سوویت فوج سے لڑنے کےلیے تربیت دی۔ وقتِ ضرورت پر تو امریکا نے ان کو جہادی کا نام دیا کیونکہ یہ اس وقت امریکا کے مفاد کےلیے کام کر رہے تھے لیکن جوںہی مفاد پورا ہوا، امریکا نے ان جہادیوں سے آنکھیں پھیر لیں اور انہیں نظرانداز کرنا شروع کردیا۔
پھر اسی کے نتیجے میں جب ان خودساختہ جہادیوں کو امریکا سے بدلہ لینے کا کوئی اور راستہ نہ ملا تو 11 ستمبر 2001 کو دن کی روشنی میں رات والے تارے تب دکھائے جب دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرادیئے گئے، اور جس میں امریکا کو بھاری جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا جس سے کوئی ناواقف نہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری امریکی حکومت نے بلاواسطہ ان جہادیوں یعنی طالبان پر ڈال دی اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی کھوج شروع کردی۔
اس سلسلے میں امریکا نے بارہا پاکستان اور افغانستان سے مدد مانگی لیکن جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا تو امریکی خفیہ ایجنسیوں نے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا جس میں اسامہ بن لادن جاں بحق ہوگیا اور اس بات کی تصدیق ٹھیک 6 مئی کو طالبان نے بھی کردی، جس میں تحریک طالبان پاکستان بھی شامل تھی؛ اور پریشان کُن بات یہ تھی کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سب سے پہلے بی بی سی اور وائس آف امریکا نے نشر کی کیونکہ اس خفیہ آپریشن کا نہ تو پاکستانی حکومت کو پتا تھا نہ میڈیا کو، یہ دونوں اس وقت خوابِ خرگوش مزے لے رہے تھے۔
لیکن 2014 میں جب فوج کی کمان جنرل راحیل شریف نے سنبھالی اور امریکا کے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کیا، جس میں پاک فوج کو کامیابی تو ملی مگر بھاری نقصان بھی اُٹھانا پڑا، لیکن اس کے باوجود امریکا ’’ڈومور‘‘ سے پیچھے نہیں ہٹا لیکن اس بار موجودہ حکومت نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’نو مور‘‘ کا عندیہ دے دیا ہے۔
9/11 کے بعد اب تک امریکا میں جس نے بھی اقتدار سنبھالا، ان میں سے ایک نے بھی آج تک مسلمانوں کو اس واقعے کا بلاواسطہ ذمہ دار نہیں قرار دیا، چاہے وہ جارج بش ہو یا بارک اوباما۔ ان دونوں نے آج تک مسلمانوں کے خلاف ہرزہ رسائی نہیں کی۔
اس وقت اقوامِ عالم آشوب چشم میں مبتلا ہیں کیونکہ دنیا نے اسلام اور دہشت گردی کو بالعموم ایک ہی نام دے دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان کی مثبت تصویر اجاگر کرے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر پلیٹ فارم پر جا کر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے بتائیں کہ اصل دہشت گرد کون ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post دہشت گردی: امریکا، ٹرمپ اور مسلم دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2rSvuiK
No comments:
Post a Comment