بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بے روزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سرِفہرست ہے۔ ماہرین کے مطابق برصغیر میں باقاعدہ آبادی کا آغاز بلوچستان سے ہوا اور یہیں سے ہڑپہ اور موہن جودڑو کی عظیم الشان تہذیبوں کے سوتے بھی پھوٹے۔ بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح اسے ایک عرصے سے فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بلوچستان کا تاریخی شہر کوئٹہ ان حملوں کی زد میں رہا ہے۔
کوئٹہ ایک پیالہ نما خوبصورت وادی ہے جسے پہاڑوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ کوئٹہ میں ہر سال لاکھوں لوگ گھومنے پھرنے اور سیاحت کی غرض سے آتے ہیں جبکہ پاکستان میں سب سے زیادہ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ بھی اسی شہر کی قسمت میں لکھے ہوئے ہیں۔ ہر سال کوئٹہ میں دو ہزار سے تین ہزار افراد مختلف واقعات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ اغوا برائے تاوان کی بھی کئی وارداتیں کوئٹہ میں پیش آتی ہیں جن کی وجہ افغانستان کا بارڈر نزدیک ہونا بھی ہے۔
اس سلسلے کا پہلا بلاگ یہاں پڑھیے: جعفرآباد سے نیشنل ہائی وے پرکوئٹہ تک سفر
کسی زمانے میں دنیا کا پُر امن ترین شہر کوئٹہ آج بدامنی کے الاؤ میں بدل چکا ہے۔ کبھی مہلک بیماریوں کے علاج معالجے کےلیے دنیا کے لوگ کوئٹہ کی آب و ہوا میں پہنچ جاتے تھے مگر آج لوگ اس شہر سے بھاگ رہے ہیں کیونکہ کوئٹہ میں امن کے ساتھ سکون بھی نہیں رہا۔ لوگ گیس، بجلی، پانی اور بدترین سڑکوں کی وجہ سے بیزار ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے کا دوسرا بلاگ یہاں پڑھیے: نیشنل ہائی وے پر جعفرآباد سے کوئٹہ تک سفر (دوسرا حصہ)
کوئٹہ میں بولی جانے والی زبانوں میں بلوچی، براہوی، پشتو، سندھی، سرائیکی، پنچابی اور فارسی قابل ذکر ہیں۔ بلوچی چپل اور بلوچی سجی اس شہر کی مشہور سوغات ہیں۔ آج کل کوئٹہ بلوچستان کا سب سے بڑا شہر بنا ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بہت سے دفاتر قائم ہوئے ہیں اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی بھی اسی شہر میں ہے۔ بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی بھی اسی شہر کے حصے میں ہے جبکہ پاکستان کے سب سے زیادہ خشک میوہ جات بھی اسی شہر میں دستیاب ہیں۔ دنیا کی سب سے مشہور جگہ جبل نور بھی اسی شہر کے نواح میں واقع ہے جس میں لاکھوں شہید قرآن مجید رکھے گئے ہیں۔
اس سلسلے کا تیسرا بلاگ یہاں پڑھیے: نیشنل ہائی وے پرجعفرآباد سے کوئٹہ تک سفر (تیسرا حصہ)
ہماری اگلی منزل یہی جبل نور تھا۔
جبل نور
ہم نے جبل نور کے بارے میں تو سن رکھا ہے کہ یہاں کی سرنگوں میں شہید قرآن پاک دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بابرکت کام کی وجہ سے جبل نور مقدس مقام کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ تاہم بہت سے مسائل زدہ لوگوں نے اس مقدس مقام کو اپنی حاجت روائی کا مرکز بھی بنالیا ہے۔ انہوں نے جبل نور کی دیواروں پر تحریریں لکھ چھوڑی ہیں جو کچھ یوں ہیں:
- یااللہ میری پھوپھی کی شادی کرادے
- یااللہ میری چاچی کو اس کے شوہر سے ملادے
- یااللہ مجھے امتحان میں پاس کروادے
- یااللہ دنیا کی سب خوشیاں مجھے دے
- یااللہ میرے درد دل کو کم کردے
- یااللہ میری ساس کو مار دے تاکہ میں اپنے میاں کے ساتھ سکون کی زندگی گزار سکوں
- یااللہ میری بہو کو ہدایت دے کہ وہ اپنے میاں کا خیال کرے
- یااللہ مجھے دنیا کا امیر آدمی بنادے
- یااللہ مجھے افسر بنادے
- یااللہ میری محبت مجھے لوٹا دے
- ایسی بہت سی دعائیں اور التجائیں یہاں چٹانوں پر کندہ تھیں جنہیں پڑھتے پڑھتے سارا دن گزر جاتا اور سچ تو یہ ہے کہ ان دعاؤں پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں ایک مقام جبل نور بھی ہے جو اس دنیا کا ایک بڑا عجوبہ ہے۔
کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے سلسلہ کوہ میں یہ پہاڑی موجود ہے جہاں شہید قرآنی نسخوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس پہاڑی کے سینے کو چاک کرنے کے بعد اس عظیم کام کا آغاز 1992 میں ہوا۔ اب تک بغیر کسی مشینری کے یہاں 60 سے زائد سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ 200 فٹ سے زائد لمبی ان سرنگوں میں ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے زائد قرآنی نسخے موجود ہیں جنہیں ملک بھر سے لایا گیا ہے۔
میں جبل نور پر کچھ معلومات جمع کررہا تھا اور تصاویر بنا رہا تھا تو ایک ایرانی سیاح بھی جبل نور کی زیارت کےلیے آگیا۔ اس کے ساتھ ایک گائیڈ بھی تھا جو اسے جبل نور کے متعلق آگاہ کررہا تھا، لہذا میں بھی ان کے ساتھ ہولیا کہ مفت میں معلومات مل رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ ان سرنگوں میں 300 سے 400 سال قبل کے قدیم نسخے بھی موجود ہیں جبکہ دنیا کی تگ و دو سے دور عبادت کےلیے حجرے بھی بنائے گئے ہیں جہاں آپ عبادت بھی کرسکتے ہیں۔
1992 میں حاجی اللہ نور اور ان کے دوستوں کے تعاون سے بنائے گئے ان غاروں میں سیکڑوں سال پرانے قیمتی اور نایاب قرآنی نسخے موجود ہیں۔ یہ نسخے دنیا بھر سے یہاں لاکر محفوظ کئے جاتے ہیں۔ اس جگہ پر ہاتھ سے لکھے گئے قدیم قرآنی نسخے بھی موجود ہیں جو یہاں آنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتے ہیں۔
جبل نورالقران میں اب قرآنی نسخوں کو محفوظ کرنے کی جگہ کم پڑنے لگی ہے جس کےلیے یہاں نئی سرنگیں کھودنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ نئی سرنگوں کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت کی جارہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس کام کو حکومتی توجہ حاصل ہو جائے تو قرآن کریم کو محفوظ بنانے کے اس کام میں ان کی معاونت ہو سکتی ہے اور اس کام کو زیادہ احسن طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔
میں نے جبل نور کو الوداع کہا اور اور اپنی اگلی منزل ہنہ جھیل کی طرف چل پڑا۔
ہنہ جھیل
میں ایک وین پر بیٹھ کر ہنہ جھیل کی طرف چل پڑا اور ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ ہنہ جھیل کی تعمیر انگریزوں نے اُس وقت کی فوجی چھاؤنی میں پانی کی ضرورت پوری کرنے کےلیے ایک ذخیرے کے طور پر کی تھی جس میں مقامی افراد اور چھاؤنی کے استعمال کے بعد بچ جانے والے اضافی پانی کو محفوظ کیا جاتا تھا۔ برطانوی حکومت نے چھاؤنی کےلیے پینے کے واسطے پانی ہنہ ندی سے براہ راست پائپ لائن کے ذریعے مہیا کیا تھا جبکہ مقامی آبادی ندی میں بہنے والے پانی سے اپنی ضرورت پوری کرتی تھی۔ اس طرح دونوں کے استعمال کے بعد جو پانی بچ جاتا تھا وہ ہنہ جھیل میں ذخیرہ کرلیا جاتا تھا۔
جھیل میں تجارتی بنیادوں پر ماہی پروری کے بھرپور مواقع موجود ہیں اور یہاں پروان چڑھنے والی مچھلیوں کو کسی مصنوعی کھاد کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جھیل میں قدرتی طور پر مچھلیوں کی غذا کا اچھا انتظام موجود ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں کا احیاء اسی صورت ممکن ہے کہ جھیل میں پانی تواتر سے آئے اور وہ بخارات کی صورت میں جلد جھیل کے دامن سے نہ اڑے۔
ہنہ جھیل صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894 میں تاج برطانیہ کے دور میں پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کےلیے کا بنائی گئی تھی۔ ہنہ جھیل موسم سرما میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی بہترین آماجگاہ رہی ہے۔ سائبیریا سے آنے والے آبی پرندے جن میں بڑی تعداد میں مرغابیوں کی ہوتی تھی، موسم سرما میں پہنچتے اور موسم بہار کی آمد تک یہیں رہتے اور افزائش نسل بھی کرتے تھے۔
1818 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس جھیل میں 32 کروڑ 20 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے اور اس کی گہرائی تقریباً 43 فٹ ہے۔ بارشوں اور برفباری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا اوڑک روڈ پر واقع جھیل تک پہنچتا ہے۔
مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے چند سال یہ جھیل مکمل خشک رہی۔ کوہ زرغون سے برفباری اور بارش سمیت اوڑک کے قدرتی چشموں کے پانی کو جھیل تک لانے کےلیے برطانوی دور میں سرپل تعمیر کیا گیا تھا اور وہاں لوہے کے پانچ دروازوں اور پانچ سرنگوں کی تعمیر کی گئی تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے اور پانی جھیل تک پہنچے۔
جھیل کو بہترین سیاحتی مقام بنانے اور لوگوں کو سستی تفریح اور ماحولیات کی بہتری کےلیے جھیل کا کنٹرول پاک فوج کے حوالے کیا گیا۔ اس جھیل میں کشتی رانی کی تربیت دی جاتی ہے اور یہاں کشتی رانی کے کئی مقابلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ جھیل درمیان میں سے بہت گہری ہے۔
کئی حادثات بھی اس جگہ ہوچکے اور کئی لوگ ان حادثات کی نذر ہوگئے۔ ہنہ جھیل کی خوبصورتی اور پر فضا ماحول میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن اس جھیل کے دہانے پر تعمیر کیا جانے والا قلعہ نما دروازہ بھی فن تعمیر اور انجینئرنگ کا نادر نمونہ ہے۔ ایک پگڈنڈی آپ کو اس دیو ہیکل دروزے کی چھت پر لے جاتی ہے۔ جھیل پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ صرف شمال مغرب کی جانب ایک درہ ہے جہاں سے کسی زمانے میں جھیل کا زائد پانی نکلتا رہتا تھا۔
برطانوی دور میں اس درے پر ایک عظیم دروازہ تعمیر کیا گیا جس کی چھت پر مکینکل سسٹم نصب تھا۔ دروازے کی تعمیر جھیل کی تہہ سے شروع کرکے پہاڑ کی بلندی تک کی گئی ہے۔ دورازے کی پچھلی جانب پانی کی خشک گزر گاہ کا دور تک نظارہ کیا جاتا ہے۔ اس دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کا نظام آج کل ناکارہ ہو چکا ہے اور یہ ہمیشہ بند رہتا ہے۔ اس جگہ کی تعمیر پر مزدوروں کے ساتھ بے انتہا ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ تعمیر کے آغاز پر برطانوی انجینئر نے مقامی مزدوروں سے ادائیگی کا جو معاہدہ کیا، اس کے مطابق جو مزدور دورانِ کام نماز ادا کرے گا، اُسے 50 پیسے کم دیہاڑی دی جائے گی اور جو نماز نہیں پڑھے گا اُسے پوری دیہاڑی ملے گی۔ لیکن جب ادائیگی کی گئی تو صورتحال اس کے برعکس رہی اور نمازپڑھنے والے مزدور کو پوری اور بے نمازی مزدور کو 50 پیسے کم اُجرت ادا کی گئی۔
بارشیں کم ہونے کی وجہ سے اور اطراف سے بارشوں، چشموں اور کاریزوں کا جو پانی بہہ کر جھیل کی طرف آتا تھا، ان گزر گاہوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے باعث بارشوں کے موسم میں پورے کا پورا پانی جھیل میں نہیں آتا۔ لاتعداد مقامی اور غیرملکی سیاح ہنہ جھیل کی قدرتی خوبصورتی اور خوشگوار فضا کی بنا پر شہر کے ہنگاموں سے دور اس پُر سکون اور پُر فضا مقام پر چند روز قیام کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اگر ان سیاحوں کےلیے یہاں ایک بڑا ہوٹل یا چند اقامتی کاٹیج تعمیر کردیئے جائیں تو ہنہ جھیل کی دلکشی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مجھے بھوک کی شدت محسوس ہوئی تو میں نے ہنہ جھیل کو الوداع کہا اور بازار کی طرف چل پڑا جہاں بلوچی کپڑے فروخت کیے جاتے تھے۔ کوئٹہ، بلوچی کپڑوں کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ لہذا ہماری منزل کوئٹہ کے بازار تھے جہاں سے ہمیں بلوچی کپڑوں کی خریداری کرنا تھی۔
بلوچی کپڑے
کوئٹہ شہر میں ہر بازار پر بلوچی کپڑے مل جاتے ہیں۔ ہم نے فیملی کےلیے بلوچی کپڑوں کی خریداری شروع کردی۔ بلوچی کپڑے بلوچ خواتین کے روایتی ملبوسات ہیں۔ بلوچی کپڑوں پر کشیدہ کاری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ بلوچ خواتین آج بھی شیشے کی کڑھائی والے ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔ بلوچستان کی اس بے مثال ثقافت نے دنیا کو خیرہ کرکے رکھ دیا ہے۔ بلوچ قوم کی خواتین میں صدیوں سے اسی لباس کو زیب تن کرنے کی روایت چلی آرہی ہے۔ ان ملبوسات میں تلہ، اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے۔ بلوچی ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب کیاجاتا ہے جس میں لان، ریشم، سوتی، شیفون اور جارجٹ کے کپڑوں پر کڑھائی کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے ان روایتی ملبوسات سے بلوچ ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔
بلوچستان کی خواتین صدیوں سے کڑھائی والا بلوچی لباس پہنتی آرہی ہیں جس پر جگہ جگہ کشیدہ کاری کی ہوئی ہوتی ہے۔ اور اس کشیدہ کاری میں چھپی ایک انمول چیز، سامنے والی کڑھائی شدہ جیب ہوتی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی۔ اس کڑھائی کے حصے کو بلوچی عورتوں کی ہنرمندی کی انفرادیت کہا جاتا ہے۔ یہ روایتی قمیض ہے جس کی جیب اتنی لمبی ہوتی ہے کہ دس کلو چینی یا آٹا آرام سے اس میں ڈالا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیب کو بنانے کےلیے کم از کم دو ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے جبکہ اس کشیدہ کاری میں بہت محنت صرف کی جاتی ہے۔ یہ کشیدہ کاری دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے زیادہ وقت طلب کشیدہ کاری ہوتی ہے۔ بلوچستان میں تو اس کی قیمت ہزاروں میں ہے لیکن دوسرے شہروں میں اسکی مالیت لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔ بلوچستان میں آج بھی لڑکیاں کشیدہ کاری کے ساتھ قمیضیں بڑے شوق سے پہنتی ہیں، خاص کر بلوچوں کی شادی بیاہ پر ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھے نقش و نگار والے بلوچی کپڑوں کا سوٹ زیب تن کرے۔
بلوچ خواتین ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے پہنتی ہیں مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت وقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار مہینے تک لگ جاتے ہیں۔ اس لیے پورے ملک کے بڑے شہروں کی خواتین مشین کی کڑھائی کے ڈیزائن کے بلوچی کپڑوں کے سیمپل پسند کرکے آرڈر دیتی ہیں جو خاصی سستی بھی ہوتی ہے اور کم وقت میں تیار کی جاتی ہے۔ لیکن یہ چند ماہ میں اپنی اصل شکل اور ڈیزائن کھو دیتی ہے۔
پورے ملک میں بلوچی لباس، بلوچ خواتین سے آرڈر پر تیار کروائے جاتے ہیں جن پر بلوچ خواتین اپنی محنت کی رقم دس سے بیس ہزار روپے لیتی ہیں جبکہ کچھ خواتین کڑھائی پر آنے والا وقت اور ڈیزائن دیکھ کر رقم لیتی ہیں جبکہ سادہ سے سادہ کڑھائی بھی دس ہزار روپے سے کم میں نہیں ہوتی۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ بلوچی لباس میں فراک نما بند چاکوں والی قمیض پر شیشے کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے کو ترجیح دی جاتی ہے جب کہ بلوچی کپڑوں کی شوقین خواتین نے بلوچی قمیض کے آگے دامن پر ایک بڑی سی جیب، دوپٹے کے پلوؤں اور شلوار کے پائنچے پر بھی ایک قسم کی کڑھائی کرتی ہیں۔ اس وقت بلوچی کپڑے دنیا میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں جو ہم سب کےلیے قابل فخر بات ہے۔ بلوچی کشیدہ کاری ایک مہنگا اور مشکل ہنر ہے، جہاں عام سی باریک سوئی سے کپڑوں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے پورے بلوچستان سے ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں فروخت کےلیے بھیجے جاتے ہیں جو خاصے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں کیونکہ ہاتھ سے کی گئی کڑھائی میں بہت زیادہ وقت اور محنت درکار ہوتے ہیں۔
اگر آپ میں کسی کو بھی بلوچی کپڑے پہننے کا شوق ہے تو بلوچستان کے کسی بھی گاؤں کا رخ کریں۔ بلوچی کڑھائی شدہ کپڑے بالکل نہیں ملیں گے کیونکہ بلوچی کپڑے صرف اور صرف آرڈر پر تیار کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بلوچی کشیدہ کاری نہ صرف بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں شہرت رکھتی ہے بلکہ ہمسایہ ملک افغانستان اور ایران سمیت اکثر خلیجی ممالک میں آباد بلوچ خواتین بھی کشیدہ کاری کے نقش و نگار والے کپڑے بڑے شوق سے پہنتی ہیں اور بلوچستان کی ثقافت کا نام دنیا بھر میں اجاگر کرتی ہیں۔
ہم بلوچی کپڑوں کو خیرباد کہہ کر پرنس روڑ پر بلوچی سجی سے اپنی بھوک مٹانے کےلیے چل پڑے۔
بلوچی سجی
میں پرنس روڑ پر تھکا ہارا پہنچ گیا جہاں پر بلوچی سجی کے کئی ہوٹل موجود ہیں۔ بلوچی سجی تیار کرنے کےلیے بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے تیار کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سجی کو سجانے کےلیے مسلسل پانچ گھنٹے تک آگ کی تپش میں پکایا جاتا ہے۔ سجی تیار کرنے والا باورچی اس میں نمک سے لے کر تمام مصالحوں تک کو برابر کرتا ہے۔ اس آگ کی تپش کو بھی برابر رکھا جاتا ہے۔ سجی کو سجانے کےلیے تین سے چار باورچی ہوتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ سجی کو مختلف اطراف سے آگ کی حدت کی طرف کیا جاتا ہے تاکہ گوشت کچا نہ رہ جائے۔
مرغی کی سجی گھنٹے سے ڈیڑھ گھنٹے میں تیار ہوجاتی ہے، جبکہ دنبے یا بکرے کی سجی دو سے ڈھائی گھنٹے میں تیار ہوتی ہے۔ سجی بنانے والے سب سے پہلے لکڑیاں ایک دائرے میں لگالیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لکڑیوں میں آگ لگائی جاتی ہے۔ جب لکڑی کا زیادہ حصہ جل کر انگارے بن جاتا ہے تو اس کے بعد ذبح کیے گئے نازک دنبے یا بکرے کی ران، دستہ یا مرغی کو مصالحہ جات لگا کر، ایک سیخ کو گوشت کے درمیان سے گزار کر، انگاروں کے چاروں طرف لگادیا جاتا ہے۔
بلوچستان اپنے لذیذ اور خوش ذائقہ کھانوں اور مہمان نوازی کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔ سجی کو نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک سمیت خلیجی ممالک میں بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ صدیوں پہلے سجی صرف پہاڑی علاقوں میں کھائی جاتی تھی مگر اب شہری علاقوں میں بھی اس ڈش کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے ان روایتی کھانوں کی ترکیب نسل در نسل سے چلی آرہی ہے۔ آج بھی سجی کی لذت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اسے آج بھی قدیم طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں جو سجی عام ہے، یہ حقیقی بلوچ سجی کے ذائقے سے بہت دور ہے۔
سجی نہ صرف ایک بہترین بلوچی روایتی ڈش ہے بلکہ یہ بلوچستان کی پہچان بھی بن چکی ہے۔ جو بھی اسے ایک مرتبہ کھاتا ہے، بار بار کھانے کی خواہش کرتا ہے۔ اگر بلوچستان میں دسترخوان پر روایتی بلوچی ڈش ’’سجّی‘‘ نہ سجی ہو تو اس دسترخوان کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ آج کل بلوچستان کے دورے پر مختلف ممالک کے سربراہان کو بلوچی سجی کا کھانا ضرور کھلایا جاتا ہے۔ بلوچی سجی واحد غذا ہے جو گھی کے بغیر تیار ہوتی ہیں۔
جب ہم بلوچی سجی کھا کر فارغ ہوئے تو سوچا کہ اب بلوچی چپل بھی خریدے جائیں۔ بلوچی چپل کی دکانیں کوئٹہ میں بہت ساری ہیں اور پورے ملک سے چپل کے شوقین لوگ یہاں آتے ہیں۔ لہذا ہم بھی نے بلوچی چپلوں کی دکانوں کا رخ کیا۔
بلوچی چپل
بلوچی چپل بلوچستان کے ہر شہر، ہر دیہات میں پہنی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے لیے بلوچی چپل کی خریداری کےلیے بازار کا رخ کیا۔ یہ وہی بلوچی چپل ہے کہ جب بلوچ قوم نے اپنے پیروں کو ننگا محسوس کیا تو پیشّ سے چپّل بناکر پہننا شروع کردیا۔ بلوچی چپل نہ صرف بلوچستان کی ثقافت کا ایک حصہ ہے بلکہ پورے ملک میں لوگ اسے بہت شوق سے پہنتے ہیں۔ مرد ہوں یا خواتین، بلوچی چپل کو بطور فیشن اور دلفریب لگنے کے باعث بہت شوق سے پہنتے ہیں۔ بلوچی چپل انتہائی دیدہ زیب ڈیزائن میں بنائے جاتے ہیں۔ آج کل بلوچی چپلیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔
بلوچی چپل کی تیاری بھی کچھ آسان نہیں۔ اس کی بناوٹ میں مضبوط دھاگہ استعمال ہوتا ہے اور انتہائی مضبوط چمڑے اور مخصوص اوزاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان چپلوں کی تیاری میں ایک سے دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ خواتین کےلیے بلوچی چپل دیکھنے اور پہننے میں خوبصورت لگتی ہیں، جنہیں وہ خود پہننے کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب کو بطور تحفہ خاص بھی دیتی ہیں۔ یہ بلوچی چپل خوبصورت کشیدہ کاری اور دیدہ زیب انداز سے بنائی جاتی ہے۔ ان چپلوں کے ساتھ بلوچی ٹوپیاں اور واسکٹ بلوچستان میں رہنے والے سب لوگ بہت شوق سے پہنتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ شادی کے دن اگر دولہا بلوچی چپل نہ پہنے تو اس کی شادی ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ بلوچستان میں بلوچی چپل کے مختلف ڈیزائن ہیں مگر مقبول چند ڈیزائنوں میں نوریزی کٹ، بالاچ کٹ، مینگل کٹ، شکاری کٹ، سندھی کٹ اور براہوی کٹ کے ساتھ ساتھ اور بھی دوسرے کٹ بہت مشہور ہیں۔
بلوچی چپل گرمیوں میں، خاص کر شادی کے دنوں میں، نایاب ہوجاتے ہیں جبکہ دکانوں پر مردانہ، زنانہ اور بچوں کے سائز اور کئی اقسام کی چپلیں پہلے دستیاب نہیں ہوتیں۔ گو کہ مختلف کمپنیوں اور برانڈز کے ریڈی میڈ جوتے ایئرکنڈیشنڈ دکانوں پر موجود تو ہیں لیکن بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کی ترجیح بلوچی چپل ہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی بلوچی چپل کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم نے بلوچی چپل خریدے اور جعفرآباد سے کوئٹہ روڈ کو خدا حافظ کہا۔
اس طرح ہماری یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post نیشنل ہائی وے پر جعفرآباد سے کوئٹہ تک سفر (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2BYWBIX
No comments:
Post a Comment