پاک فضائیہ کے پہلے مسلمان سربراہ، بابائے پاک فضائیہ اور شاہینِ ملّت ایئر مارشل (ر) محمد اصغرخان رحلت فرماگئے، انا للہ وانّا الیہ راجعون۔ اس طرح پاکستانیت اور حب الوطنی کا ایک باب ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا۔
اصغر خان 17 جنوری 1921ء کو جموں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں تعلیم حاصل کی اور 1940ء میں گریجویشن کرکے اس سال کے آخر میں نویں رائل دکن ہارس میں کمیشنڈ آفیسر مقرر ہوئے۔ 1941ء میں انڈین ایئرفورس میں چلے گئے۔ اسی سال انبالہ اور سکندر آباد سے ہوا بازی کی تربیت حاصل کی۔ اگلے سال نمبر 3 اسکواڈرن انڈین ایئرفورس پشاور میں تعینات ہوئے۔ 1944ء میں برما میں بطور فلائٹ کمانڈر خدمات انجام دیں۔ 1945ء میں اسکوارڈن لیڈر بنائے گئے۔ 1946ء میں برطانیہ گئے اور وہاں جیٹ طیارے اڑانے کی تربیت حاصل کی۔ اوائل 1947ء میں فلائنگ ٹریننگ اسکول انبالہ میں چیف فلائنگ انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔
تقسیم ہندوستان کے وقت بحثیت مسلمان افسر اصغر خان قیامِ پاکستان کے پُرزور حامی تھے، اسی لیے اب انگریزوں کےلیے مزید خدمات پیش کرنے کے بجائے انہوں نے پاک فضائیہ میں شمولیت ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان کو بھارت نے اپنی روایتی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگی ساز و سامان نہیں دیا۔
جب کشمیر کا محاذ گرم ہوا تو پاک فضائیہ کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی مکمل اسکواڈرنز جو بھارت کا مقابلہ کرتے۔ اصغر خان نے اپنے سربراہ ایل پیری کین کی عدم دلچسپی دیکھتے ہوئے خود پاک فضائیہ کو منظم کرنے کی ٹھانی اور بھارت سے حصے کے جہاز لینے خود اُس کے ہوائی مستقر پہنچے جہاں بھارت نے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بہت سے جہاز ناکارہ کردیئے۔ وہ سمجھتا تھا کہ پاک فضائیہ ان جہازوں کو چھوڑ دے گی لیکن اصغر خان نے خود ڈکوٹا کو اڑا کر اس میں جہازوں کے پرزے کرکے رکھ دیئے اور 3 پروازوں کے ذریعے یہ کام مکمل کیا۔ بعد میں ان جہازوں کو کراچی میں ماڑی پور کے مستقر پر کھڑا کرکے شیرشاہ مارکیٹ سے نٹ بولٹ اور کچھ سامان کے ذریعے ان کی مرمت کی۔
پاک فضائیہ کو پھر بھی اپنا حصہ مکمل نہیں ملا تھا لیکن پاک فضائیہ کا یہ افسر جانتا تھا کہ عنقریب اس کے کاندھوں پر ایک نئی مسلم فضائیہ کی ذمہ داری آنے والی ہے، اسی لیے اس نے تندہی سے کام جاری رکھا اور جلد ہی پاک فضائیہ نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں واقع رائل ایئرفورس کے سابق اڈّے پشاور اور کراچی میں واقع ماڑی پور سے دو ٹمپسٹ اسکواڈرن (نمبر 5 اور 9) اور ایک سی 47 ٹرانسپورٹ یونٹ (نمبر 6 اسکواڈرن) کے ساتھ اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اصغر خان کے مشورے پر فنّی تربیت کےلیے کراچی میں ڈرگ روڈ کے اڈے پر مرمت کی سہولتوں کا انتظام کیا گیا۔ اسی قسم کی دیگر سہولیات مغربی پاکستان میں کوہاٹ، چکلالہ (راولپنڈی) اور لاہور کے اڈوں پر بھی منظم کی گئیں۔
1947 کا سال ختم ہونے سے قبل ہی کئی تربیتی ادارے قائم ہوچکے تھے جن میں ابتدائی تربیت کا وِنگ، ابتدائی فلائنگ اسکواڈرن اور رسالپور میں اعلیٰ تربیتی ادارہ شامل ہیں جہاں ہوا باز ٹائیگر موتھ اور ہارورڈ پر پرواز کی تربیت حاصل کرتے تھے۔ ان سب میں اصغرخان کا کلیدی کردار شامل رہا، بلکہ اصغر خان خود نوجوانوں کو پاک فضائیہ میں شمولیت کی ترغیب دیتے اور جو افسران موجود تھے، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہتے ’’ہمیں پاک فضائیہ کو عالمِ اسلام کی سب سے طاقتور فضائیہ بنانا ہے جس کا حصہ میں اور آپ ہیں، ہمیں قائدِاعظم کی طرح تھکنا نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ: پاک فضائیہ کی داستانِ شجاعت از عنایت اللہ)
قیام پاکستان کے بعد پاکستان ایئر فورس کالج رسالپور نوشہرہ کو منظم کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ قائداعظم رسالپور تشریف لائے تو انہوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ 1949ء میں گروپ کیپٹن بنائے گئے اور اس حیثیت سے آپریشنل پاکستان ایئر فورس کی کمان سنبھالی۔ اسی سال انہیں رائل ائیرفورس اسٹاف کالج برطانیہ سے اعلٰی کارکردگی کا ایوارڈ ملا۔
23 جولائی 1957 کو اینگلو سربراہ آرتھر مکڈونلڈ کی ریٹائرمنٹ کے بعد صرف 36 سال کی عمر میں اس جوان افسر کے کاندھوں پر پاک فضائیہ کے سربراہ کی ذمہ داری آگئی۔ اس طرح اصغرخان اس وقت کی سب سے بڑی مسلم ریاست کی فضائی سرحدوں کے نگہبان بن گئے۔
پاک فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اصغر خان نے اہم کارنامے انجام دیئے۔ جہازوں کے نئے اسکواڈرنز اور نئے جہازوں کی خریداری میں اہم کردار ادا کیا، اسٹار فائٹر اور ایف 6 انہی کے عہد میں پاک فضائیہ کا حصہ بنے۔ اصغر خان کے عہد میں ہی پاک فضائیہ میں وہ نوجوان پروان چڑھے جنہوں نے جنگِ ستمبر میں شاندار کارناموں سے زریں تاریخ لکھی۔
جنگِ ستمبر سے قبل ایک چھوٹا سا تنازعہ ضرور ہوا جسے آج کل سیاستدان بہت ہوا دیتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ وقت کا تقاضا تھا۔ اصغر خان کا شروع میں موقف تھا کہ پاک فضائیہ رن کچھ کی جنگ میں حصہ نہیں لے گی اور انہوں نے اس ضمن میں بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو بھی یہی مشورہ دیا، لیکن بعد میں بھارت کی جانب سے جارحانہ عزائم دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی اور جنگِ ستمبر کے آغاز میں جب شاہیں بچوں کے بال و پر کھلے تو سب اصغر خان کو یاد کررہے تھے جو 22 جولائی 1965 کو جنگ شروع ہونے سے کچھ ماہ قبل ہی ریٹائر ہوگئے تھے؛ تاہم دورانِ جنگ وہ اپنے قیمتی مشورے دیتے رہے اور دورانِ جنگ چین سے فوجی معاہدات کےلیے صدرایوب خان نے فوجی وفد کے ہمراہ اصغرخان ہی کو بھیجا۔
اصغر خان ایک سچے مسلمان اور محبِ وطن پاکستانی تھے جنہوں نے پاک فضائیہ کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ جب 70 کی دہائی میں ملکی حالات نے نازک رخ اختیار کیا تو یہ بھی میدانِ سیاست میں آگئے اور اپنی جماعت ’’تحریکِ استقلال‘‘ کے نام سے بنائی جس نے بھٹو کے خلاف شدید رویہ رکھا۔ لیکن وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو بھی اصغرخان کی حب الوطنی اور عوامی پذیرائی جانتے تھے، شاید اسی لیے انہوں نے اصغرخان سے زیادہ تعرض نہیں رکھا۔ اس کے بعد 80 کی دہائی میں اصغرخان نے سخت مشکلات جھیلیں، ان کا شمار ایک خاموش سیاستدان میں ہوتا رہا۔
2013 میں انہوں نے اپنی تنظیم کو تحریکِ انصاف میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ اصغرخان اپنے مشن اور مقصد پر تاحیات گامزن رہے۔ جنرل مشرف نے ان کے صاحبزادے عمر اصغر خان کو اپنی کابینہ میں شامل کیا جو بعد ازاں اپنے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ حالت میں پائے گئے۔ اس واقعے نے اصغر خان کی صحت اور ذہن دونوں کو متاثر کیا۔
راقم الحروف (ابصاراحمد) نے اپنے اس عظیم ہیرو سے بارہا ملاقات کرنا چاہی لیکن صرف سرسری ملاقات ہی مقدر ٹھہری جس میں شاہینِ ملت کی آنکھوں میں جرأت و ہمت کی داستانیں جگمگاتی دیکھیں۔ جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو شدید دھچکا لگا کیوں کہ ایسے محبِ وطن اور پاکستان کی تاریخی نشانیاں اب اٹھتی جارہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ جنت میں اصغر خان کے درجات بلند فرمائے (آمین، ثم آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post شاہینِ ملّت، بابائے پاک فضائیہ: اصغرخان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2m47F1Y
No comments:
Post a Comment